Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۶ (کتاب الفرائض ، کتاب الشتّٰی )
1 - 145
کتاب الفرائض
بسم اﷲ الرحمن الرحیم ط
مسئلہ ۱ : یکم ذی الحجہ ۱۳۰۵ھ 

کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ہندہ ایک عورت قوم طوائف سے تھی جس نے عمرو سے نکاح کیا، ہندہ کی نائکہ کے اور بھی چند رنڈیاں مختلف البطن تھیں جو اپنا پیشہ کسب اب تک کرتی ہیں ہندہ نے جس کا کوئی وارث نہ تھا شوہر کے بھتیجے کو متبنٰی کیا اور اپنی حیات میں اپنے کل متروکہ کی بابت جو اسے ترکہ شوہر ہی سے پہنچاتھا زید کے لئے وصیت کی کہ میرے بعد کل ترکہ کا مالک زید ہو، اب بعد انتقال ہندہ اس کی نائکہ کی دوسری رنڈیاں لیلٰی بدعوی خواہری ترکہ چاہتی ہے اس صورت میں شرعاً حق لیلٰی کا ہے یا زید کا؟ بیّنواتوجروا(بیان کرو اجرپاؤگے۔ت)
الجواب : شوہر کا بھتیجا یہ اپنا متبنی شرعاً وارث نہیں، پس اگرگواہان عادل سے جنہیں شرع قبول کرلے وصیت ثابت ہوجائے تو شک نہیں کہ زید ہرطرح موصی لہ ہوگیا خواہ لیلٰی ہندہ کی بہن ہو یانہ ہو فرق یہ ہوگا کہ لیلٰی وہندہ ایک ماں کے پیٹ سے پیداہوئیں تو وہ اخیافی بہن ٹھہرکر چھٹے حصے کی فرضاً اور نصف کی رداً مستحق ہوگی
فان الرد مقدم عندنا علی الموصی لہ لجمیع المال
 (کیونکہ ہمارے نزدیک رَد اس شخص پرمقدم ہے جس کے لئے کل مال کی وصیت کی گئی ہے۔ت)
صرف ایک ثلث باقی بعدادائے دَین میں وصیت نافذ ہوگی دو ثلث باقیماندہ لیلٰی کو ملیں گے۔ فرضاً و رداً اور اگر ثابت ہوگا کہ لیلٰی ہندہ کی بہن نہیں بلکہ صرف اس وجہ سے انہیں بہنیں کہاجاتا کہ دونوں ایک ڈیرے کی رنڈیاں تھیں تو وصیت کل مال میں جاری ہوگی اور بعدادائے دَین اگرذمہ ہندہ ہو کل متروکہ زید کو ملے گا مگر اس امرکالحاظ واجب ہے کہ نسب کے ثبوت میں صرف شہرت کافی ہے
کما فی الخلاصۃ والخانیۃ والھدایۃ والھندیۃ والدر وغیرھا
 (جیسا کہ خلاصہ، خانیہ، ہدایہ، ہندیہ اوردر وغیرہ میں ہے۔ت) پس اگر مشہور ہوکہ یہ دونوں عورتیں ایک ماں کے پیٹ سے ہیں اگرچہ اولادِ زناہی ہوں تو بیشک وہ بہنیں ٹھہریں گی اور لیلٰی وارثہ ہوگی
کما فی الدرالمختار وغیرہ
 (جیسا کہ درمختار وغیرہ میں ہے۔ت) واﷲ تعالٰی اعلم
مسئلہ ۲ :  ۲۲جمادی الآخرہ ۱۳۰۶ھ

کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک عورت نے مرتے وقت زیور اپنے بھائی کے سپرد کیا اور یہ کہا یہ زیور میری بہومتوفی کاہے، اس تفصیل سے کہ کچھ اس کے والدین کا دیاہوا ہے اور کچھ میرادیاہواہے اور اول بہوکا انتقال ہوا توا س کی تجہیزوتکفین میں نے کی اور بعدکو اس کے خاوند کاانتقال ہوا تو اس کی بھی تجہیزوتکفین میں نے کی اور دونوں لاولد مرے ہیں اور بالعوض اس کے مال دونوں کے مرنے میں اس مال کی تعداد سے زیادہ روپیہ خرچ ہوگیا ہے اوراس مال میں کسی کا دعوٰی نہیں ہے تم بعد میرے کل مال کے میرے خیرات کردینا، اب بہو کے والدین کہتے ہیں کہ ہماری دختر کامال ہے ہم وارث ہیں اور خاوند کے وار کہتے ہیں کہ ہمارے بھائی اوربھاوج کامال ہے ہم وارث ہیں، عورت کے والدین کہتے ہیں کہ ہماری دختر کامہربھی چاہئے، خاوند کے وارث کہتے ہیں کہ ہمارے بھائی نے کہا کہ مہرمجھ کو میری زوجہ نے بخش دیاہے۔ اب بموجب شرع شریف کے وہ مال خیرات کیاجائے یاوارثان کو دیاجائے اور کس کس وارث کو کس تعداد سے دیاجائے؟
الجواب : اگر عورت نے اپنی بہو کی تجہیزوتکفین اپنے پاس سے بطور خود کی تو اس کامعاوضہ پانے کی اصلاً مستحق نہیں،
فی العقود الدریۃ عن التتارخانیۃ عن العیون اذا کفن الوارث المیّت من مال نفسہ یرجع والا جنبی لایرجع۱؎ اھ وفیہا عن نھج النجاۃ لوکفن المیت غیرالوارث من مال نفسہ لیرجع فی ترکتہ بغیر امرالوارث فلیس لہ الرجوع اشھد علی الوارث او لم یشھد۲؎۔
عقودالدریہ میں تاتارخانیہ سے بحوالہ عیون منقول ہے کہ جب اپنے مال سے میت کو کفن پہنائے تو وہ ترکہ میں رجوع کرسکتاہے اور اجنبی ایسا کرے تو رجوع نہیں کرسکتا اھ اور اسی میں نہج النجاۃ سے منقول ہے اگرغیروارث اپنے مال سے وارث کی اجازت کے بغیر اس نیت سے میت کو کفن پہنائے کہ وہ میت کے ترکہ میں رجوع کرے گا تو اس کو رجوع کا حق نہیں چاہے وارث کی موجودگی میں ایساکرے یاغیرموجودگی میں۔(ت)
 (۱؎ تا ۲؎ العقود الدریۃ فی تنقیح الفتاوی الحامدیہ     کتاب الوصایا     باب الوصی     ارگ بازار قندھار  ۲ /۳۲۷)
اس تقدیر پرنصف زیورخاص بہو کے ماں باپ کاہے جس کی نسبت عورت کی وصیت محض مہمل، اور اگرشوہر متوفاۃ یعنی اپنے پسرخواہ بہو کے مادریاپدرغرض اس کے کسی وارث کے اذن سے تجہیزوتکفین کی تو جس قدرصرف کفن دفن میں صَرف ہوا بشرطیکہ اس میں قدرسنت یعنی پانچ کپڑوں اورکفن مثل سے زیادتی نہ کی ہو اس قدر کی قیمت بہو کے ترکہ سے لے سکتی ہے
فی العقود اما الاجنبی فلارجوع لہ مطلقا الا فی اذن لہ الوارث۳؎۔
عقود میں ہے لیکن اجنبی کومطلقاً رجوع کا حق نہیں سوائے اس کے کہ وارث نے اس کی اجازت دی ہو۔(ت)
 (۲؂  العقود الدریۃ فی تنقیح الفتاوی الحامدیہ     کتاب الوصایا     باب الوصی     ارگ بازار قندھار ۲ /۳۲۷)
باقی کانصف اس کے ماں باپ کاحق ہے، رہادونوں صورتوں پرباقیماندہ آدھا نصیبہ شوہر تھا، اب تجہیزوتکفین پسر میں بھی نظرکریں گے اگرقدرسنت یاکفن مثل سے زیادت کی ہے مثلاً تین کپڑوں کی جگہ چارکپڑے دئیے یاجیسے کپڑے وہ عید کو پہنتاتھا ان سے بہترکفن دیاتو یہاں بھی ترکہ پسری سے اس کامطالبہ نہ کرسکیں گے بلکہ یہ ٹھہرے گا کہ وہ ایک سلوک تھا جو اس نے بطور خود کیا ،
فی العقود عن الانقروی عن مجمع الفتاوٰی، ان کفنہ باکثر من کفن المثل لایرجع لان احدالورثۃ لایملکہ وھل لہ ان یرجع فی الترکۃ بقدر کفن المثل قالوا لایرجع لان اختیارہ ذٰلک دلیل التبرع ۱؎ اھ قلت مثلہ فی الخانیۃ مقتصرا معللا وبہ حکم فی الخلاصۃ والبزازیۃ والملتقط وان قالوا فیما بعد انہ ان قیل یرجع بقدر الکفن المثل فلہ وجہ کما ھو لفظ الاولین اولایبعد کماھو لفظ الاخیر فان ذٰلک لیس بروایۃ ولافیہ دلالۃ علی الحکم بہ اوالاختیار کما لایخفٰی۔
عقود میں انقروی سے بحوالہ مجمع الفتاوٰی منقول ہے اگروارث نے میت کو کفن مثلی سے زائد پہنایا تورجوع نہیں کرے گا کیونکہ کوئی ایک وارث ایسانہیں کرسکتا، کیاصورت مذکورہ میں اس کو ترکہ میں کفن مثلی کی حد تک رجوع کا حق ہے؟ مشائخ نے کہا کہ اسے حق نہیں کیونکہ کفن مثلی سے زائد کو اختیار کرناتبرع کی دلیل ہے اھ میں کہتاہوں اسی کی مثل خانیہ میں ہے اقتصار کرتے ہوئے اور علب بیان کرتے ہوئے، اسی کے ساتھ حکم لگایاگیاہے خلاصہ، بزازیہ اور ملتقط میں اگرچہ اس کے بعد مشائخ نے فرمایا کہ اگر مثلی کفن کے برابررجوع کرنے کاقول کیاجائے تواس کی بھی وجہ ہے جیساکہ پہلی دونوں کتابوں کی عبارت ہے یایہ کہ ایساکرنا بعید نہیں جیسا کہ آخری کتاب کی عبارت ہے کیونکہ یہ کوئی روایت نہیں اور نہ ہی اس میں مذکور کے ساتھ حکم لگانے یا اسے اختیار کرنے پردلالت ہے جیسا کہ پوشیدہ نہیں۔(ت)
 (۱؎ العقود الدریۃ فی تنقیح الحامدیۃ     کتاب الوصایا     باب الوصی     ارگ بازار قندھارافغانستان ۲ /۳۲۷)
اسی طرح کفن دفن کے علاوہ سوئم، چہلم، فاتحہ، درودوغیرہا کے مصارف کہیں مجرا نہیں ملتے،
فی الحاشیۃ الطحطاویۃ علی الدرالمختار التجھیز لایدخل فیہ السبح و الصمدیۃ والجمع والموائد لان ذٰلک لیس من الامور اللازمۃ فالفاعل لذٰلک ان کان من الورثۃ یحسب علیہ من نصیبہ ویکون متبرعا وکذا ان کان اجنبیا۲؎۔
درمختار پرحاشیہ طحطاویہ میں ہے کہ میت کی تجہیزمیں دعاودرود، لوگوں کو جمع کرنا اور کھانے کا اہتمام کرنا داخل نہیں کیونکہ یہ لازمی امورمیں سے نہیں ہیں لہٰذا ایساکرنے والا اگر وارثوں میں سے ہے تو اس کے حصے میں شمار کیاجائے گا اور وہ متبرع ہوگا۔ اور یہی حکم ہوگا اگرایساکرنے والا اجنبی ہو۔(ت)
 (۲؎ حاشیۃ الطحطاوی علی الدرالمختار   کتاب الفرائض    المکتبۃ العربیہ کانسی روڈ کوئٹہ ۴ /۳۶۷)
Flag Counter